Silence Over Palestine – فلسطین پر خاموشی

سعودی عرب دنیا کے نقشے پر ایک نہایت اہم اور منفرد مقام رکھتا ہے، جو اس کے جغرافیائی، سیاسی اور تاریخی عوامل کی وجہ سے ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل میں سعودی عرب کی اہمیت اور انفرادیت کو جغرافیائی اور سیاسی دونوں پہلوؤں سے واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔

Middle East Region

 سعودی عرب کی جغرافیائی اہمیت کو سمجھیں تو یہ ملک مشرق وسطیٰ میں واقع ہے، اور ایشیا، افریقہ اور یورپ تین بڑے براعظموں  کو آپس میں جوڑنے والا ایک مرکزی خطہ ہے۔ یہ سرزمین بحیرہ احمر اور خلیج فارس جیسے اہم سمندری راستوں تک رسائی پر قابض ہے، جو عالمی تیل اور عام اشیاء  کی تجارت کے لیے انتہائی ضروری ہیں۔اس کے مشرقی صوبے میں دنیا کے سب سے بڑے ثابت شدہ تیل کے ذخائر موجود

ہیں۔ اس کے علاوہ یہاں قدرتی گیس، فاسفیٹ، سونا اور باکسائیٹ جیسے قیمتی معدنی وسائل بھی پائے جاتے ہیں۔

Location of Saudia Arabia at Centra Region

 سعودی عرب کا جغرافیہ صحراؤں پر مشتمل ہے، خاص طور پر ربع الخالی، جو دنیا کا سب سے بڑا مسلسل ریتلا صحرا ہے۔ یہ خطہ قدیم دور میں بدوی طرز زندگی، قبیلہ جاتی سیاست اور تجارتی راستوں پر اثر انداز ہوا کرتا تھا، جس نے پورے خطے کی تہذیب کو ایک خاص رنگ دیا۔

 سعودی عرب کو “خادم الحرمین الشریفین” کا مقام حاصل ہے کیونکہ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ، اسلام کے دو مقدس ترین شہر، اسی ملک میں واقع ہیں۔ ہر سال لاکھوں مسلمان دنیا بھر سے حج اور عمرہ کے لیے یہاں آتے ہیں، جو سعودی عرب کو دنیا بھر کے مسلمانوں کے دلوں میں ایک خاص مذہبی مقام عطا کرتا ہے۔  تیل کی دریافت کے بعد سے، خاص طور پر 1930 کی دہائی میں، سعودی عرب عالمی توانائی منڈی میں ایک کلیدی کھلاڑی کے طور پر ابھررہا ہے۔ اوپیک   کے سب سے بڑے برآمد کنندہ کی حیثیت سے یہ ملک عالمی تیل کی قیمتوں اور رسد پر گہرا اثر رکھتا ہے۔ سعودی عرب نے اپنی دولت کے ذریعے مسلم دنیا میں سیاسی اثرورسوخ حاصل کیا ہے اور خلیجی خطے میں خاص طور پر ایک طاقتور کردار ادا کیا ہے۔

 قدیم زمانے میں سعودی عرب مختلف اہم تجارتی راستوں، جیسے کہ عطر کے تجارتی راستے، کا حصہ تھا۔ ساتویں صدی میں اسلامی سنہری دور کا آغاز بھی عرب خطے سے ہوا۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران، تیل کے ذخائر اور جغرافیائی محل وقوع کے باعث عالمی اتحادیوں میں سعودی عرب کا ایک اہم کردار رہا۔  موجودہ دور میں سعودی عرب کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ سعودی عرب آج ایک اقتصادی مرکز کی حیثیت سے ترقی کر رہا ہے۔ “ویژن 2030” کے ذریعےسعودی عرب  تیل پر انحصار کم کر کے سیاحت، ٹیکنالوجی اور سبز توانائی کے شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔
آج کل سعودی عرب مغربی دنیا، خصوصاً امریکہ، کے ساتھ تعلقات متوازن رکھتا ہے، ساتھ ہی چین اور ہمسایہ اسلامی ممالک کے ساتھ بھی سفارتی روابط کو وسعت دے رہا ہے۔ جی-20 (G-20) کا رکن ہونے کی حیثیت سے یہ ملک عرب دنیا کی نمائندگی کرتا ہے اور عالمی معیشت میں اس کی شمولیت بڑھتی جا رہی ہے۔ علاوہ ازیں، سعودی عرب یمن، ایران اور شام جیسے علاقائی تنازعات اور امن مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کر رہا ہے۔

مستقبل کا منظرنامہ دیکھا جائے تو  ویژن 2030 کے تحت سعودی عرب کو عالمی کاروباری اور سیاحتی مرکز میں تبدیل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ نیوم جیسے جدید منصوبے اس کی ٹیکنالوجی، پائیداری اور اختراع میں قیادت کی خواہش کی عکاسی کرتے ہیں۔  مشرق وسطیٰ  کی سیاست پر سعودی عرب کا اثر آئندہ بھی برقرار رہے گا، خاص طور پر جب ایران اور ترکی جیسے دیگر علاقائی طاقتیں بھی اثرورسوخ بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں۔ سعودی عرب اسلامک دنیا اور مغرب کے درمیان ایک پل کے طور پر کام کر سکتا ہے، خاص طور پر توانائی، موسمیاتی تبدیلی اور ٹیکنالوجی کے میدان میں۔ اگرچہ تیل اب بھی اہم ہے، سعودی عرب شمسی توانائی، ہائیڈروجن اور دیگر متبادل ذرائع میں سرمایہ کاری کر رہا ہے تاکہ مستقبل کی دنیا میں اپنی اہمیت برقرار رکھ سکے۔ یہ تمام پہلو سعودی عرب کو نہ صرف موجودہ بلکہ مستقبل کی عالمی سیاست، معیشت اور مذہبی قیادت میں ایک اہم مقام عطا کرتے ہیں۔

مسلمان ممالک، خصوصاً طاقتور ریاستیں جیسے سعودی عرب، غزہ میں جاری نسل کشی پر خاموش کیوں ہیں؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جو آج ہر باضمیر شخص کے ذہن میں اٹھ رہا ہے۔ جب پوری مسلم دنیا فلسطین کی تاریخی، مذہبی اور تہذیبی اہمیت سے بخوبی واقف ہے، اور اسرائیل کی سیاہ تاریخ سے بھی ناآشنا نہیں، تو پھر یہ بےحسی، یہ خاموشی، اور یہ لاتعلقی کیوں؟

فلسطین وہ سرزمین ہے جسے مسلمانوں نے نہ صرف قبلۂ اول کے باعث مقدس جانا بلکہ تاریخ کے ہر دور میں اس کے لیے آواز بلند کی۔ بیت المقدس صرف ایک مقام نہیں، یہ عقیدے، قربانی اور امتِ مسلمہ کی وحدت کی علامت ہے۔  لیکن آج جب غزہ میں معصوم بچوں، عورتوں اور بےگناہ لوگوں کا خون بہایا جا رہا ہے، جب ظلم و جبر کی انتہا ہو چکی ہے، تو مسلم دنیا کی قیادت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔

سعودی عرب، جو خود کو خادم الحرمین الشریفین کہتا ہے، جس کی آواز عالمی سطح پر سنی جاتی ہے، اور جس کے پاس وسائل، طاقت اور اثر و رسوخ کی کوئی کمی نہیں—وہ کیوں خاموش ہے؟ یہ خاموشی صرف ایک سیاسی مصلحت ہے یا کسی بڑے سودے کا حصہ؟ یا پھر امت کے دکھ اور درد سے جڑت اب محض الفاظ کی حد تک رہ گئی ہے؟

 صرف سعودی عرب ہی نہیں  یقیناً، امت مسلمہ کے اندر کئی ایسے ممالک موجود ہیں جو وسائل، عسکری طاقت، سفارتی اثرورسوخ، یا اقتصادی پوزیشن کی بنیاد پر دنیا میں اہم مقام رکھتے ہیں۔ مگر یہ سب کہاں ہیں؟

پاکستان، جو واحد ایٹمی طاقت رکھنے والا مسلم ملک ہے، جس کی فوج دنیا کی بہترین افواج میں شمار کی جاتی ہے، اور جو ہمیشہ فلسطینی عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتا رہا ہے—وہ آج کیوں عملی اقدامات سے پیچھے ہے؟ کیا اقوام متحدہ میں ایک قرارداد لانا کافی ہے؟ کیا 22 کروڑ مسلمانوں کی آواز کو محض بیانات میں دبایا جا سکتا ہے؟ کیا پاکستان کی حکمت عملی میں فلسطینیوں کے دفاع کا کوئی عملی خاکہ موجود ہے، یا یہ صرف جذباتی نعرے بازی ہے؟ آسمان پر گرتے بم، بچوں کے پرخچے، چیخیں، آگ، دھواں… اور ہمارے ملک کا سب سے بڑا میلہ ایسے اسپانسرز سے سجایا جا رہا ہے، جن کی مصنوعات اسرائیلی مفادات کو تقویت دیتی ہیں۔ کیا ہم جشن منانے میں اس قدر مگن ہو گئے ہیں کہ معصوموں کی لاشیں ہمیں نظر ہی نہیں آتیں؟

ترکی، جس کی فوج نیٹو کی سب سے بڑی افواج میں سے ایک ہے، جو خلافت عثمانیہ کی وراثت کا دعویدار ہے، اور جس کی قیادت مسلم دنیا میں سیاسی بصیرت رکھنے والی شمار ہوتی ہے—وہ کیوں محض مذمتی بیانات تک محدود ہے؟ رجب طیب اردگان بارہا فلسطین کے حق میں آواز بلند کرتے ہیں، مگر عملی سطح پر کوئی واضح اقدام نظر کیوں نہیں آتا؟ کیا ترکی اپنی سفارتی، اقتصادی اور عسکری طاقت کو استعمال نہیں کر سکتا تھا؟ یا اسے بھی کسی مصلحت نے روک رکھا ہے؟

ایران، جو خطے میں ایک طاقتور کھلاڑی سمجھا جاتا ہے، جس کی عسکری پالیسی سخت گیر ہے، اور جس کے اتحادیوں کا نیٹ ورک لبنان سے لے کر عراق تک پھیلا ہوا ہے—وہ کیوں غزہ کے لیے براہ راست اقدامات سے گریزاں ہے؟ کیا یہ سب صرف بیانات تک محدود رہے گا؟ یا ایران صرف اس وقت حرکت میں آئے گا جب اس کے مفادات براہِ راست متاثر ہوں؟ اگر ایران اسرائیل کے خلاف سینہ سپر ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، تو آج غزہ کے نہتے عوام کی چیخوں پر اس کا ضمیر کیوں خاموش ہے؟

انڈونیشیا، جو آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا مسلم ملک ہے، اور جس کے عوام فلسطین کے لیے مسلسل آواز بلند کر رہے ہیں—اس کی حکومت عالمی سطح پر بھرپور سفارتی مہم کیوں نہیں چلا رہی؟ کیا اتنی بڑی آبادی اور جمہوری حکومت کا وزن عالمی رائے عامہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتا؟ یا پھر یہ ملک بھی صرف عوامی احتجاج تک محدود ہو چکا ہے؟ انڈونیشیا کی قیادت کہاں ہے جب امت کو اس کی سب سے زیادہ ضرورت ہے؟

قطر، جو دنیا کے امیر ترین ممالک میں سے ہے، اور الجزیرہ جیسے طاقتور میڈیا نیٹ ورک کا مالک ہے، وہ کیوں صرف الفاظ کے ذریعے مزاحمت کر رہا ہے؟ کیا قطر اپنے اقتصادی تعلقات، سفارتی نیٹ ورک، اور میڈیا کی طاقت کو عملی اثرورسوخ میں نہیں ڈھال سکتا؟ کیا صرف مذاکرات کی پیشکش کافی ہے جب غزہ کے بچوں پر بم برس رہے ہوں؟ قطر کی خاموشی بھی اس وقت ایک بڑے سوالیہ نشان کی صورت اختیار کر چکی ہے۔

ملائیشیا، جو ہمیشہ امتِ مسلمہ کے اجتماعی مفادات کی بات کرتا رہا ہے، اور مہاتیر محمد جیسے رہنما فلسطین کے کھلے حمایتی رہے ہیں، آج کیوں عالمی پلیٹ فارمز پر مؤثر دباؤ پیدا کرنے میں ناکام ہے؟ کیا اس کا کردار صرف اخلاقی حمایت تک محدود ہے؟ کیا ملائیشیا کی آواز میں وہ جرات نہیں جو عالمی رائے عامہ کو بدل سکے؟ یا یہ بھی سفارتی دباؤ سے گریز کا شکار ہے؟

مصر، جو فلسطین کا ہمسایہ ہے، جس کے ہاتھ میں غزہ کی ناکہ بندی کی کنجی ہے، اور جس کے پاس ایک مضبوط فوج ہے، وہ کیوں سرحدیں بند رکھے ہوئے ہے؟ کیا مصری حکومت کا فرض نہیں کہ وہ نہتے فلسطینیوں کی مدد کو آئے؟ یا اس کی پالیسی صرف اپنی علاقائی سلامتی تک محدود ہے؟ 

متحدہ عرب امارات (یو اے ای) ، جو آج ترقی، معیشت اور سفارتکاری میں ایک طاقتور مسلم ملک کے طور پر جانا جاتا ہے، اسرائیل سے سفارتی تعلقات بنانے کے بعد کیا اب فلسطینیوں سے یکجہتی کے دعوے اخلاقی حیثیت بھی رکھتے ہیں؟ جب دبئی کی عمارتیں روشن ہوتی ہیں اور غزہ اندھیرے میں ڈوبی ہوتی ہے، تو کیا یہ امت کی وحدت کی تصویر ہو سکتی ہے؟ یو اے ای کے پاس سرمایہ، طاقت، اور اثرورسوخ ہے، مگر عمل کہاں ہے؟

بنگلہ دیش، جس کی آبادی 17 کروڑ سے زائد ہے، جو دنیا کے سب سے بڑے مسلم ممالک میں شمار ہوتا ہے، اور جس نے خود ظلم، ہجرت اور کرب کی تاریخ دیکھی ہے، وہ آج فلسطینیوں کی چیخوں پر خاموش کیوں ہے؟ کیا تاریخ کا سبق یہ نہیں کہ مظلوم کا ساتھ دینا فرض ہے؟ بنگلہ دیش عالمی سطح پر انسانی حقوق کی بات کرتا ہے، مگر کیا اس کی حکومت غزہ کے حق میں کوئی بھرپور سفارتی مہم نہیں چلا سکتی؟ کیا اس کی آواز عالمی ضمیر کو جھنجھوڑنے کی طاقت نہیں رکھتی؟

الجزائر ، جس نے فرانسیسی سامراج کے خلاف طویل اور خونریز جدوجہد کی، جو آزادی اور غیرت کی علامت سمجھا جاتا ہے، اور جس کی عوام فلسطین کے لیے بھرپور جذبات رکھتے ہیں، وہ ریاستی سطح پر کیوں صرف بیانات اور ریلیوں تک محدود ہے؟ کیا الجزائر اپنی عسکری، سفارتی اور تاریخی حیثیت کے ذریعے مسلم اتحاد کی بنیاد نہیں رکھ سکتا؟ اگر ایک وقت میں الجزائر دنیا بھر کے انقلابیوں کے لیے امید تھی، تو آج غزہ کے بچوں کے لیے امید کیوں نہیں بن سکی؟

نائیجیریا، جو افریقہ کی سب سے بڑی معیشت ہے اور مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد پر مشتمل ہے، کیا اس کی ذمہ داری نہیں بنتی کہ وہ مسلم افریقی ممالک کو اکٹھا کر کے فلسطین کے لیے کوئی مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دے؟ نائیجیریا کے پاس علاقائی طاقت ہے، فوجی صلاحیت ہے، اور سفارتی اثرورسوخ بھی، تو وہ دنیا میں فلسطینی مظلوموں کے حق میں کیوں سرگرم کردار ادا نہیں کر رہا؟ کیا خاموشی یہاں بھی مفادات سے جُڑی ہے؟

مراکش، جو فلسطین کے تاریخی حامی رہا ہے، اور جس کے عوام آج بھی بیت المقدس سے دلی وابستگی رکھتے ہیں، وہ ریاستی پالیسی میں عملی اقدامات سے کیوں گریزاں ہے؟ مراکش نے حالیہ برسوں میں اسرائیل سے تعلقات بحال کیے، کیا یہ تعلقات فلسطینیوں کے خون سے زیادہ اہم ہیں؟ کیا بیت المقدس کی حرمت پر سفارتی سودے بازی جائز ہے؟ مراکش کی ریاست کو اپنے تاریخی کردار کا ادراک کب ہو گا؟

ازبکستان، قازقستان، ترکمانستان (وسطی ایشیائی ریاستیں)  یہ تمام مسلم ریاستیں، جو قدرتی وسائل، عسکری انفراسٹرکچر، اور جغرافیائی اہمیت رکھتی ہیں، آج فلسطین کے معاملے پر غیر معمولی حد تک خاموش کیوں ہیں؟ سوویت دور کے بعد جب ان ممالک نے آزادی حاصل کی، تو مسلم دنیا نے ان کا خیرمقدم کیا۔ کیا آج ان کی طرف سے فلسطین کے لیے عملی حمایت کا وقت نہیں آیا؟ کیا ان کی خاموشی اس بات کا ثبوت ہے کہ مسلم اتحاد صرف تصوراتی ہے؟

عراق، جو کئی جنگوں سے گزر چکا ہے، جس نے خود ظلم اور تباہی کا سامنا کیا ہے، اور جس کی سرزمین پر کبھی اسلام کی عظیم تہذیبیں آباد تھیں—وہ آج کیوں مظلوم فلسطینیوں کے لیے عملی کردار ادا نہیں کر پا رہا؟ کیا عراق کی حکومت کو امت کے اجتماعی کرب سے کوئی سروکار نہیں؟ یا وہ صرف اندرونی بحرانوں میں الجھ کر عالمی مظلوموں کو فراموش کر چکا ہے؟

افغانستان، جسے تاریخ میں کبھی سرنگوں نہیں کیا جا سکا، جس کی سرزمین نے بڑی بڑی طاقتوں کو شکست دی، وہ کیوں فلسطین کے معاملے پر ایک واضح، جراتمندانہ مؤقف اختیار نہیں کرتا؟ کیا افغانستان کا کردار صرف داخلی بقا تک محدود ہو چکا ہے؟ کیا اس سرزمین کی غیرت و حمیت اب صرف ماضی کی کہانی بن چکی ہے؟ فلسطین کا مقدمہ آج کے غازیوں اور مجاہدوں سے عملی مدد کیوں نہیں مانگ سکتا؟

سوڈان، جو جغرافیائی لحاظ سے مشرقی افریقہ اور عرب دنیا کے درمیان پُل کا کردار ادا کرتا ہے، اور جو کبھی اسلامی تحریکوں کا مرکز رہا ہے، وہ آج غزہ کے محاصرے پر کیوں خاموش ہے؟ کیا سوڈان کے سیاسی بحران نے اس کی خارجہ پالیسی کو مفلوج کر دیا ہے؟ یا امت کے اجتماعی درد پر آواز اٹھانا اب سیاسی بوجھ بن چکا ہے؟

کیا یہ سوال اٹھانا گناہ ہے کہ آخر کب تک ہم معصوم بچوں کی لاشیں سرخ آسمانوں میں اڑتی دیکھتے رہیں گے؟ کب تک ماؤں کی چیخیں، باپوں کی بے بسی، اور بچوں کی کٹی پھٹی لاشیں صرف تصاویر اور ویڈیوز تک محدود رہیں گی؟ کیا امتِ مسلمہ کا ضمیر مر چکا ہے؟ کہاں ہیں وہ حکمران جو طاقت، دولت اور فوجی صلاحیتوں کے دعوے کرتے ہیں؟ کہاں ہے وہ غیرت، جو ایک وقت میں ایک مظلوم کی فریاد پر لشکر کھڑا کر دیا کرتی تھی؟ کیا کسی کے دل میں یہ خیال نہیں آتا کہ وہ کچھ کرے، آواز اٹھائے، یا کم از کم اس ظلم کے خلاف کھڑا ہو؟ کیا صرف دعاؤں، بیانات اور کانفرنسوں سے خون رکتا ہے؟ اگر آج بھی ان مظلوموں کے لیے کچھ نہیں کیا گیا، تو پھر کل کس کے لیے کریں گے؟ اور آخر یہ خاموشی کب ٹوٹے گی؟

اب ہم ان تمام سوالات کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کریں گے۔ لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ ہم یہ جانیں کہ کون کچھ کر سکتا ہے؟ کیا عوام کے پاس وہ طاقت ہے جس سے ظلم کے نظام کو چیلنج کیا جا سکے؟ یا یہ ذمہ داری صرف حکمرانوں، بیوروکریٹس اور حکومتوں کی ہے؟

اگر ہم عوام کی بات کریں، تو بے شک ان کے دل دکھ سے لبریز ہیں، ان کی آنکھیں غزہ کی تصویروں پر نم ہیں، اور ان کے ہاتھ دعاؤں کے لیے اٹھتے ہیں۔ مگر کیا صرف جذبات کافی ہیں؟ کیا صرف ریلیاں، سوشل میڈیا پوسٹس، یا چند دن کا احتجاج دنیا کے بڑے نظام کو ہلا سکتا ہے؟ کیا عوام متحد ہو کر کوئی واضح مؤثر مطالبہ حکمرانوں سے کر رہے ہیں؟

اور اگر حکمران طبقے کی بات کریں، تو ان کے پاس طاقت ہے، وسائل ہیں، سفارتی چینل ہیں، اور عالمی پلیٹ فارمز تک رسائی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جن کے ایک فیصلے سے عالمی پالیسی میں ہلچل مچ سکتی ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ کر کیا رہے ہیں؟ کیا کسی نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات منقطع کیے؟ کیا کسی نے معاشی دباؤ ڈالا؟ یا کیا کسی نے عالمی عدالتوں میں مظلوموں کی قانونی جنگ لڑی؟

        چلیں اب ہم بات کرتے ہیں کہ مسلم امت اور مسلم حکمران  کیا کر رہے ہیں۔

مسلم رہنما کس خوف میں جیتے ہیں؟
یہ سوال صرف سیاسی تجزیہ نہیں بلکہ ایک روحانی اور اخلاقی چیخ ہے، جو ہر باشعور دل کو جھنجھوڑتی ہے۔ جب غزہ کی گلیوں میں معصوم بچوں کی لاشیں بکھری ہوں، اور قبلۂ اول پر حملے ہوں، تو سوال یہ ہے کہ وہ رہنما، جو خود کو امت کے محافظ کہتے ہیں، کیوں خاموش ہیں؟

 

اندرونی طاقت کا خوف

اکثر مسلم ممالک میں آمریت، بادشاہت یا فوجی پشت پناہی سے قائم حکومتیں برسراقتدار ہیں۔ ان حکومتوں کے لیے سب سے بڑا خطرہ ان کے اپنے عوام ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ فلسطین ایک ایسا زخم ہے جو ہر مسلمان کے دل میں دھڑکتا ہے، اور اگر یہ درد سڑکوں پر نکل آیا، تو صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ خود ان کے اقتدار کی بنیادیں بھی ہل سکتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ فلسطین پر آواز بلند کرنا، ان کے لیے عوامی بیداری کا دروازہ کھولنے کے مترادف ہے- ایک ایسا دروازہ جس کے پیچھے ان کے اقتدار کے خاتمے کا اندیشہ چھپا ہے۔

مغرب کے ردِعمل کا خوف
آج کی دنیا میں بیشتر مسلم ریاستیں مغربی طاقتوں کے معاشی، عسکری اور سفارتی نظام سے جڑی ہوئی ہیں۔ اسرائیل کے خلاف کوئی واضح اور سخت موقف اختیار کرنے کا مطلب ہے:

بین الاقوامی پابندیاں

دفاعی معاہدوں کی معطلی

سرمایہ کاری کی واپسی

عالمی مالیاتی اداروں میں موجود دولت کا منجمد ہو جانا

یہ سب ایک ایسی قیمت ہے جسے مسلم حکمران چکانے کے لیے تیار نہیں، چاہے اس کے بدلے غزہ کی گلیاں خون سے سرخ ہو جائیں۔

معاشی منصوبوں کا خوف
سعودی عرب کا ویژن 2030، یو اے ای کی عالمی سرمایہ کاری، قطر کی سفارتی طاقت، مصر کی اقتصادی بحالی—یہ سب منصوبے مغربی سرمایہ، سیاحت، اور غیر ملکی اعتماد پر کھڑے ہیں۔ اگر فلسطین کے حق میں کوئی مؤثر اقدام کیا گیا، تو یہ خواب خس و خاشاک کی طرح بکھر سکتے ہیں۔ اس لیے ترقی کے یہ خواب، مظلوموں کے حق میں بولنے سے بڑی رکاوٹ بن چکے ہیں۔

اقتدار کی کرسی کی مجبوری
اکثر مسلم لیڈران کا اقتدار مغربی حمایت، خاص طور پر امریکہ یا یورپی یونین کی آشیرباد سے قائم رہتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ اگر انہوں نے اسرائیل یا مغرب کی پالیسیوں کی مخالفت کی تو ان کی حکومتیں غیر مستحکم ہو سکتی ہیں، یا کسی “عرب اسپرنگ” جیسے انقلاب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
اس لیے وہ اقتدار کو بچانے کے لیے خاموشی کو ترجیح دیتے ہیں، چاہے وہ خاموشی کتنی ہی مجرمانہ کیوں نہ ہو۔

سفارتی تنہائی کا خدشہ
بہت سے مسلم ممالک عالمی سطح پر تنہائی کا شکار ہونے سے ڈرتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اگر وہ اسرائیل یا اس کے حامی ممالک کے خلاف کھڑے ہوئے تو انہیں عالمی پلیٹ فارمز (جیسے اقوام متحدہ، ورلڈ بینک، IMF) پر تنقید یا بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس اندیشے کے تحت وہ عالمی رائے عامہ کے بہاؤ کے ساتھ بہنے کو بہتر سمجھتے ہیں، بجائے اس کے کہ مظلوموں کے حق میں کھڑے ہوں۔

خودغرض خارجہ پالیسی
زیادہ تر مسلم ممالک کی خارجہ پالیسی قومی مفادات کے گرد گھومتی ہے، نہ کہ امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد کے گرد۔ ان کے فیصلے معیشت، دفاع، اور بین الاقوامی تجارت کے توازن پر ہوتے ہیں، نہ کہ ظلم و ستم پر۔
فلسطین، کشمیر، یا یمن—یہ سب محض سیاسی بیانات کا حصہ بن چکے ہیں، عملی ترجیحات کا نہیں۔

میڈیا اور بیانیے پر کنٹرول
بہت سے مسلم ممالک نے اپنے قومی میڈیا کو اس حد تک قابو میں رکھا ہے کہ عوام تک صرف وہی خبر پہنچتی ہے جو حکمران چاہیں۔ فلسطین کے مسئلے کو اکثر پسِ پشت ڈال دیا جاتا ہے یا محض رسمی طریقے سے بیان کیا جاتا ہے، تاکہ جذبات نہ بھڑکیں اور عوام سڑکوں پر نہ نکلیں۔
یہ کنٹرول شدہ بیانیہ عوامی دباؤ کو کم کرنے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔

مسلم بلاک کا فقدان
آج مسلم دنیا میں کوئی مؤثر، متحد اور خودمختار بلاک موجود نہیں۔ او آئی سی  جیسے ادارے صرف علامتی بیانات تک محدود ہو چکے ہیں۔ جب تک کوئی مضبوط مسلم اتحاد عملی میدان میں قدم نہیں رکھتا، اسرائیل جیسے معاملات پر مؤثر ردعمل ممکن نہیں۔

کیا مسلم رہنماؤں نے اپنی راہ کھو دی ہے؟
روحانی، اخلاقی اور تاریخی پیمانے پر اگر پرکھا جائے تو جواب واضح ہے: ہاں۔
فلسطین صرف زمین کا ٹکڑا نہیں، یہ غیرتِ اسلامی، عدل و انصاف، اور مظلوم کے ساتھ کھڑے ہونے کی علامت ہے۔ اور جب اس علامت کو مٹایا جا رہا ہے، تب وہی لیڈر جو خود کو اسلام کے سپاہی کہتے ہیں، تماشائی بن کر خاموش بیٹھے ہیں۔

عوام چیختے ہیں، دعائیں کرتے ہیں، بائیکاٹ کی تحریکیں چلاتے ہیں۔ لیکن حکمران… وہ صرف رسمی بیانات دیتے ہیں، کانفرنسوں میں چند الفاظ بولتے ہیں، اور پھر دنیا کے سود و زیاں میں گم ہو جاتے ہیں۔

یہ وقت سوالات کا ہے، محاسبے کا ہے—اور شاید امت کے ضمیر کو جگانے کا آخری موقع بھی۔

کیا مسلم دنیا اب بھی طاقت رکھتی ہے؟ یقیناً ہاں۔

مسلم ممالک کے پاس ابھی بھی بے پناہ طاقت موجود ہے

 

معاشی طاقت

تیل اور گیس کے ذخائر دنیا کی معیشت کو کنٹرول کر سکتے ہیں۔

اسلامی ممالک کے سرمایہ کاری فنڈز مغربی دنیا میں بڑی جائیدادوں، کمپنیوں اور بینکوں میں لگے ہیں۔

اگر تمام مسلم ممالک مل کر بائیکاٹ یا تیل کی بندش کریں تو عالمی معیشت ہل سکتی ہے۔

جغرافیائی طاقت

اسلامی دنیا اہم سمندری گزرگاہوں جیسے سوئز کینال، خلیج فارس اور آبنائے باسفورس پر قابض ہے۔

کئی مغربی فوجی اڈے مسلم سرزمین پر ہیں، جن کا انخلا مغرب کی عالمی حکمتِ عملی کو متاثر کر سکتا ہے۔

 مذہبی اور ثقافتی اثر

مکہ و مدینہ کے محافظ کی حیثیت سے سعودی عرب کے پاس روحانی قیادت ہے۔

اسلام دنیا بھر میں تیزی سے پھیل رہا ہے، اور مسلم ممالک کے پاس یکجہتی کی طاقت ہے جس سے وہ ایک آواز دے  کر سب کو اکٹھا کر سکتے ہیں۔

پھر وہ طاقت کیوں استعمال نہیں کرتے؟

کیونکہ طاقت اتحاد اور نیت کے بغیر بیکار ہے۔

مسلم دنیا اندرونی طور پر منقسم ہے: سنی بمقابلہ شیعہ، عرب بمقابلہ غیر عرب، ترکی بمقابلہ مصر، سعودی عرب بمقابلہ ایران۔

لیڈروں کی ترجیح اپنی حکومت بچانا ہے، امت کی قیادت نہیں۔

اور سب سے بڑی بات، اصولوں کی جگہ مفادات نے لے لی ہے۔

فلسطین کی دفاع میں عدم عمل کا سب سے بڑا سبب خودغرضی ہے۔ مسلم رہنما اپنی حکومتوں کو بچانے کے لیے اس اہم مسئلے پر خاموش ہیں، کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے سے ان کی سیاسی پوزیشن کمزور ہو سکتی ہے۔ وہ مغربی طاقتوں کے ساتھ اپنے معاشی تعلقات، تجارتی معاہدوں اور دفاعی تعاون کو نقصان نہیں پہنچانا چاہتے، کیونکہ ان معاہدوں کی بدولت ان کی حکومتیں قائم ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ اگر اسرائیل یا مغرب کے خلاف کوئی سخت قدم اٹھایا تو ان کی معیشت، بین الاقوامی تعلقات اور ساکھ خطرے میں پڑ جائے گی۔ ان حکمرانوں کی توجہ اپنی ذاتی مفادات، وسائل اور اقتدار کو محفوظ رکھنے پر مرکوز ہے، جبکہ فلسطینیوں کی آزادی اور حقوق محض سیاسی چالوں کا حصہ بن چکے ہیں۔ یہی خودغرضی ہے جو انہیں فلسطین کے دفاع میں قدم اٹھانے سے روک رہی ہے، اور یہی وجہ ہے کہ وہ ظلم و ستم کے خلاف خاموش تماشائی بنے رہتے ہیں۔

مسلمان عوام خاموش نہیں۔ وہ آواز بلند کرتے ہیں، مدد کرتے ہیں، احتجاج کرتے ہیں۔
لیکن ان کی حکومتیں
طاقت کے کھیل میں مصروف ہیں، اور نتیجہ یہ ہے کہ

ایک قوم مٹ رہی ہے، اور وہ جنہیں روکنا چاہیے تھا… خاموش ہیں۔

یہ صرف غزہ کا معاملہ نہیں، یہ پوری امت مسلمہ کی روح کا امتحان ہے۔
کیا ہم اصولوں پر کھڑے ہوں گے؟ یا ہمیشہ خوف میں دبکے رہیں گے؟

سوال یہ ہے، اے مسلمان اگر  تم نے اپنا حصہ نہ ڈالا تو  کیا تم خدا کو منہ دکھا سکو گے؟

Author

Scroll to Top